تم زوالِ کمال تھیں جانم
Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوالتم زوالِ کمال تھیں جانم
آپ اپنی مثال تھیں جانم
لفظ در لفظ ادا کیا تُم کو
لب و لہجہ، مقال تھیں جانم
میرے ہر گڑگڑاتے سجدے میں
ہر دعا کا سوال تھیں جانم
رُوبرو جس کے راگ رقص کریں
تُم وہ گیت اور تال تھیں جانم
ہر نفس ظلم ہی سہے خود پر
کیونکہ تم میری ڈھال تھیں جانم
مذہبِ عشق کی شریعت میں
ایک بس تُم حلال تھیں جانم
جز تمھارے سبھی کو چھوڑ دیا
کہ تم اہل و عیال تھیں جانم
جس نے خود سے مجھے جدا رکّھا
تم وہ بے خُود خیال تھیں جانم
مرتے دم تک تمھاری خواہش کی
تم اگرچہ محال تھیں جانم
مثل توہین ہے تمھاری تو
یعنی تم بے مثال تھیں جانم
کس قدر خُوش نصیب پل تھے جب
بازُوؤں میں نڈھال تھیں جانم
جس کی خاطر میں دشت میں بھٹکا
تم وہی تو غزال تھیں جانم
حُسنِ یُوسف بھی جس پہ حیراں رہا
تم کچھ ایسا جمال تھیں جانم
عرش تا فرش جس کا چرچا رہا
تم وہی خوش خصال تھیں جانم
بعدِ رمضان چاند آدھا رہا
تم تو پورا ہِلال تھیں جانم
تمھیں پا کر مرا زوال ہوا
تُم تو میرا کمال تھیں جانم
تم ہی مشرق تھیں اور مغرب بھی
تم جنوب و شمال تھیں جانم
مجھے ہر اِک نے ٹھوکروں پہ رکھا
ہاں مگر تم دیال تھیں جانم
جانے کس کا مجھے فراق ملا
جانے کس کا وصال تھیں جانم
میں تمھارا ملال تھا جاناں
تم بھی میرا ملال تھیں جانم
دفترِ دل بکھر گیا تم سے
آخرش تم زوال تھیں جانم
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






