میٹھی میٹھی بغاوت ہو رہی ہے
تم سے شاید محبت ہو رہی ہے
اپنی دھڑکن سے آپ بھی پوچھو
کیا اسے میری عادت ہو رہی ہے
زندگی یوں گزرتی جا رہی ہے
جیسے کوئی شرارت ہو رہی ہے
پھول شرما رہا ہے شوخی میں
تیری شاید شکایت ہو رہی ہے
حضور اب لاؤ جام گردش میں
کہکشاؤں کو زحمت ہو رہی ہے
جبیں جھکتی ہی چلی جاتی ہے
عشق ہے یا عبادت ہو رہی ہے
مجھے لے چل تپے صحراؤں میں
مجھے مخمل سے وحشت ہو رہی ہے
میرے وجود میں یوں رچ چکے ہو
مجھے اب خود سے چاہت ہو رہی ہے