حسن اور عشق کی برپا ہے قیامت کرنا
میرے چہرے پہ نئی ایک شرارت کرنا
جس کے کرنے سے ملے پیار کی دولت مجھ کو
تم مقدر میں مرے ایسی عبادت کرنا
میں سناتی ہوں اندھیروں کو فقط دل سے کلام
شعر گوئی ہے مری آج بھی عادت کرنا
اپنے کاندھوں پہ لئے پھرتے ہیں جو پیار کا بار
ایسے انسانوں کو کردار محبت کرنا
وہ بھی لکھے گا کہیں پھر سے جفا کے قصے
تم بھی زرتاب خواہش کی حقیقت کرنا
موت برحق ہے مگر عشوہ گری میں لوگو
عشق میں جان جو جائے تو سعادت کرنا
ان کے اسرار و عمل کا ہے کہاں دفن جہاں
وشمہ ناقد کی طرح سب کی شناخت کرنا