تم میری آنکھ کے تیور نا بھلا پاو گے
ان کہی بات کو سمجھو گے تو یادآؤنگا
ہم نے خشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحہء زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤنگا
اس جدائ میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤنگا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤنگا
میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح
تم اگرخود سے نہ بولو گے تو یاد آؤنگا
سرد راتوں کے مہکتے ہوئے سناٹوں میں
جب کسی پھول کو چومو گے تو یاد آؤنگا
آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤنگا
اب تو یہ اشک میں ہونٹوں سے چرا لیتا ہوں
ہاتھ سے خود انہیں پونچھو گے تو یاد آؤنگا
شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آؤنگا
حادثے آئیں گے جیون میں تو تم ہو کے نڈھال
کسی دیوار کو تھامو گے یاد آؤنگا
اس میں شامل ہے میرے بخت کی تاریکی بھی
تم سیاہ رنگ جو پہنو گے تو یاد آؤنگا