اک شخص کے پیچھے یوں "دوانہ" نہیں ہونا--
تم ٹھہرو ابھی شہر روانہ نہیں ہونا
یہ آئینہ توڑا ہے اسی سوچ کے پیچھے
اب اپنی ہی نظروں کا نشانہ نہیں ہونا
روشن ہے دیا آج تو پھر طاق میں رکھ دو
ورنہ یہ کوئی خواب سہانہ نہیں ہونا
تب بحر میں تو فکر و تجسس ہی عجب ہے
جب شعر کو اپنا ہی فسانہ نہیں ہونا
وہ چاہے تو نفرت کی یہ دیوار گرا دے
جب اس نے محبت کا زمانہ نہیں ہونا
پاؤں سے ابھی رخت سفر باندھا ہے وشمہ
کچھ روز تُو دنیا سے روانہ نہیں ہونا