مجھے راس کب آئی خوشبو پھولوں کی
خون میں گردش نہں رھی ھے بھنوروں کی
بھید کھل گئے ھیں سب زندگانی کے
حقیت عکس میں بدل گئی ھے سپنوں کی
جمع کرتے رھتے اعمال تو کچھ پا جاتے
کس نے دیکھی ھیں بہاریں حوروں کی
صبح کا وقت ھے ھمارہ بھی وقت ھوتا
شامل اڑان ھوتے ھم بھی پرندوں کی
سمیٹ لیتے کچھ وفائیں تو ممکن تھا
تم بات کرتے ھو کونسے بندھنوں کی
ہہ دور ھے بہت بے حس دلوں کا
داستانیں ھوئی پرانی چلمنوں کی
تم پری چہرا ھو محو پرواز ھو
کچھ باگیں سنبھال کر رکھتے کرموں کی
دنیا سے کیا خود سے نہیں بن پائی کبھی
شکایت کرتے ھیں کیا ھم دوسروں کی
وہ تو جاں سے گزرا تھا میری روح بن کر
اظہار کی سکت نہں رھی ھے لفظوں کی
یہاں اپنے ھی کرود ھ میں کوئی کھو جاتا ھے
اظہار کرتے ھو عارف کونسے جزبوں کی