تم کس چاہت کی بات کرتی ہو ؟
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaتم کس چاہت کی
بات کرتی ہو ؟
تم اپنے ساتھ ساتھ میرا
وقت بھی برباد کرتی ہو
وہ پیار محبت کی باتیں
اب کچھ اچھی نہیں لگتی ہیں
تم کیوں مجھے بار بار
ہیر رھنجے کی کہانی
بیان کرتی ہو ؟
دیکھ لو ! مجھے تو ہیں
ہزاروں چاہینے والے
تم کیوں سب سے
تکرار کرتی ہو ؟
سنو ! تم محبت کو
چھوڑ کر کیوں نہیں
کوئی نئی بات کرتی ہو ؟
یہ انتظار کرنا تو
تمہاری عادت ہیں
پھر تم اس میں مجھے
کیوں شمار کرتی ہو ؟
یہ زندگی ہیں یہاں لوگ
ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں
پھر تم کیوں مجھے
اپنی زندگی تصور کرتی ہو ؟
سنو ! تم چھوڑ دو یہ
کہایناں پڑنا
یہ غزلیں لکھنا
یہ سب فرضی ہیں
خوابی ہیں خیالی ہیں
سنو ! تم لوٹ جاؤ
تم بہت اچھی ہو
تم بہت سچی ہو
تم محبت کی بدلے
جان دیتی ہو
سنو ! اک آخری
حقیقت سن لو
تم میری دینا سے بہت
دور رہتی ہو
میں ایسا نہیں ہوں
جیسا تم مجھے سمجھتی ہو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






