کہتے ہیں دل سے دل راہ ہوتی ہے
تو کیا تمہارے دل کی میرے دل سے راہ ہے
نفرت تو جتاتے رہتے ہو سرے عام
سچ بتاؤں کیا تمہارے میں میری چاہ ہے
خاموش ہو جاؤں گئی میں پھر نہیں پوچھو گئی
تم کہہ دو ُجدائی کا یہ آخری ماہ ہے
شکر ہے وہ غفور و رحیم میری سن لیتا ہے
ورنہ ُاس کے آگئے میری کوئی جاہ ہے
میں ڈوبتے ڈوبتے الله نا کہتی تو کیا کہتی
کیا ُاس کے سوا کہیں پناہ ہے
وہ میری اچھائیوں یا ُبرائیوں کا کیا سمجھے
جن کے دل ہی غفلتوں سے سیاہ ہے