تم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہو
Poet: وزیر علی صبا لکھنؤی By: Aqib, karachiتم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہو
کہیں گل اور کہیں خار نظر آتے ہو
قابل دید تم اے یار نظر آتے ہو
چشم بد دور طرحدار نظر آتے ہو
صورتیں کرتے ہو اے جان ہزاروں پیدا
تم نئی شکل سے ہر بار نظر آتے ہو
بھول جاتا ہوں میں فرقت کے گلے اور شکوے
شکر کرتا ہوں جب اے یار نظر آتے ہو
آئنہ دیکھنے کو جب نہیں ملتا تم کو
اپنی تم تشنہ دیدار نظر آتے ہو
کہتے ہو ہم نہیں کرتے ہیں کوئی فرمائش
جان تک لینے کو تیار نظر آتے ہو
خوں کسی عاشق کشتہ کا چڑھا ہے سر پر
رنگ لائے ہوئے اے یار نظر آتے ہو
بند ہو جائیں نہ رستے کہیں دیوانوں سے
بال کھولے سر بازار نظر آتے ہو
رہتی ہیں آٹھ پہر آپ کو کنگھی چوٹی
اپنی زلفوں میں گرفتار نظر آتے ہو
خوف سے برج میں جلاد فک چھپتا ہے
تم جو باندھے ہوئے تلوار نظر آتے ہو
سنبلستاں ہیں مری جان سراسر زلفیں
رخ گل رنگ سے گلزار نظر آتے ہو
آبرو حسن کی دولت سے ملی ہے تم کو
رنگ کندن سا ہے زردار نظر آتے ہو
کیا ہے بے یار کھٹکتے ہو مری آنکھوں میں
اے گلو باغ میں تم خار نظر آتے ہو
شان ہے گیسوؤں سے آپ میں سرداری کی
سبزۂ خط سے نمودار نظر آتے ہو
ایسے معشوق زمانے میں کہاں ملتے ہیں
پیار کرنے کے سزاوار نظر آتے ہو
دونو گیسو پئے عاشق ہیں کمندیں دوہری
پیچ میں لاؤ گے عیار نظر آتے ہو
تپ الفت میں صباؔ ہے یہ تمہارا درجہ
دق کے آثار ہیں بیمار نظر آتے ہو






