اُلفتِ یار سے معمور ہے سینہ میرا
بِن تیرے مثلِ شبِ زار ہے جینا میرا
وصلِ جاناں کی تمنّا ہے دلِ عاجز میں
فُرقتِ یارمیں دُوبر ہوا جینا میرا
در و دیوار بھی وحشی مجھے اب لگتے ہیں
زوالِ وحشتِ در،تجھ سے ہے مِلنا میرا
اب تو آجا!کہ سِسک کر کہیں مَر جاؤں نہ
سُکونِ قلب تیرے دم سے حبیبہ میرا
ہوگا ایمان مکمل تیرے سبب اے رفیق
نقصِ ایماں سے پریشاں، دلِ فُغاں میرا
تُجھ کو پانے کی دُعا کرتا ہے رب سے حیدر
جو ہو قُبول،لگے پار سفینہ میرا