تمھاری آواز جیسے ریشم
بہت ملائم
گداز جسموں پہ سرسراتا ہوا کا جھونکا گلاب ڈالی کو چھوکے گزرے
یا چوڑی کھنکے
یا کوئی پازیب گنگُنائے
تمھارا لہجہ
یا لکھنئو کی کسی حویلی میں بیٹھی بیگم غزل کوئی گنگنا رہی ہو
کہ جیسے غنچے چٹخ رہے ہوں
بسنت باغوں میں گارہی ہو
تم اپنی آواز اور لہجہ مری سماعت کو دان کردو یہ بول میٹھے جو بولتی ہو
یہ لفظ موتی جو رولتی ہو
کہو بس اک بار
"ہیں سب تمھارے"
کرو نہ یوں میری جان کردو
پکارتی ہیں تمھیں یہ باہیں
تم ان میں آکر
سمٹ سماکر
ملائم آواز میں
پیار مانگو
مرے بدن کا حصار مانگو