تمھارے حسن پے میں آج تک کچھ لکھ نہ سکا
Poet: Humera Sajid By: Humera Sajid, Lahoreتمھارے حسن پے میں آج تک کچھ لکھ نہ سکا
کوئی تم سے زیادہ حسین مجھے لگ نہ سکا
کس کے حسن کی مسال دوں میں تمھارے لیے
کسی چیز میں ایسا حسن مجھے مل نہ سکا
کبھی گلاب کو بھی تمھیں میں دیر تک دیکھتا رہا
لیکن تم سے زیادہ حسین کوئی گلاب مل نہ سکا
بادلوں کو دیکھا ،برف پوش وادیوں میں ڈھونڈا
تمہارا بدل کہیں بھی مجھے ،آج تک مل نہ سکا
صحرا کی خاک چھا نی ،ہر ذرے کو آفتاب کر کے دیکھا
سمندر کی گہرایوں میں بھی ایسا گوہر ما ل نہ سکا
کہکشاؤں اور سارا آسمان چھان لیا
لاکھ تلاش کیا ، پر ایسا تارا مل نہ سکا
گرمیوں کا چاند ہو یا سردیوں کا پیارا سورج
تجھ سے مل کر جو سکھ ہے ملتا ،کوئی وہ سکھ دے نہ سکا
گٹھا ئیں برستی رہیں ،ٹھنڈی ہواہیں چلتی رہیں
تیرے پیار سے دل کو جو ملتی ہے ٹھنڈک ،ایسی ٹھنڈک کوئی دے نہ سکا
بہار آئی اور ہر طرف پھول ہی پھول کھلا گئی
تیرے آنے سے جو آئی تھی بہار ، ایسی بہار میری زندگی میں کوئی لا نہ سکا
تم اکثر مجھ سے پوچھتی ہو کہ تم آخر مجھ سے اتنی محبت کرتے ہو کیوں
سب اپنے پرائے دیکھ لئے لیکن تم جیسی بے غرض محبت مجھے کوئی دے نہ سکا
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






