تمھیں بہار کی کلیاں جواں پکارتی ہیں
کہتی مرحبا! سب تتلیاں پکارتی ہیں
نہ بوسہ پیار کا عنبر فشاں لبوں سے لو
یہ میری سانسوں کی خاموشیاں پکارتی ہیں
حسین راتیں ہیں دیدار کو بنیں تیرے
قمر، نجوم کی کرنیں رواں پکارتی ہیں
نہ آنا سامنے شیشے کے ہو کے تم ملبوس
لٹکتی زلف کی یہ کنڈلیاں پکارتی ہیں
زمین و چرخ بہت گرم جوشی میں ہیں آج
گھٹاؤں سے نکلتی بجلیاں پکارتی ہیں
پسند آئیں ہیں منہدی کو اِس قدر، ضد سے
نہیں ہیں چھوڑنی، تلیاں اے جاں! پکارتی ہیں
مراجعت تری اک پل کو بھی گوارا نہیں
یہ نیلی فام سی پریاں یہاں پکارتی ہیں
تری نگاہ کے ساحل پہ ہے ٹھہرتا دل
یہ بحرِ عشق کی سب کشتیاں پکارتی ہیں
سکون کا ہے ذریعہ تمھاری خاکِ قدم
گُلِ گلاب کی سب پتّیاں پکارتی ہیں
خفا نہ ہو کے جا عامؔر سے میرے پیارے دوست
تمام شہر کی گلیاں نہاں پکارتی ہیں