تمہا ری بندوق کیا کرے گی
یہ جب چلے گی
نہتے بچوں کی جان لے گی
سسکتی ما ؤں کی اجڑی گو دوں
پہ ہنستے ہنستے
کسی بھی جا بر کسی بھی ظالم
کسی بھی جلاد
کی حفاظت میں جا چھپے گی
تمہا ری بندوق کیا کرے گی
صدا جھکی ہے یہ پھر جھکے گی
کسی بھی غاصب
فراعنہ کی خبا ثتو ں
کسی محا فظ
کے سبز قد موں میں جا گرے گی
چمک ستاروں کی ما ند کر کے اگر دکھا دو
د مکتے سورج کی روشنی گل جو کر سکو تو
جوان جذ بوں کا یہ سمندر جو پار کر لو
بلند ہمت کی یہ ہو ا ئیں جو قید کر لو
تو یہ سمجھنا
تمہاری بندوق چل گئی ہے
مگر یہ ممکن نہ ہو سکے گا
کبھی ہوا ہے نہ اب یہ ہو گا
خبر ہے تم کو تمہاری بندوق
پستیوں کی ہے اک علا مت
تمہاری بندوق جا نتے ہو
نشانِ ذلت بنی ہوئی ہے