تمہارا چہرہ
تمہاری آنکھیں
تمہارے ہونٹوں کے حاشیے پہ
لکھے ہوئے یہ وفا کے نغمے
تمہارے شانوں پہ بکھری زلفیں
تمہاری قوسِ قزح سی رنگت
یہ جسم جیسے کہ
خوشبوؤں کو کسی نے پیکر عطا کیا ہے
یہ چال جیسے کہ
بے نیازی کو چلنا کوئی سکھا گیا ہے
یہ رنگ سارے
روش روش پہ کھلے ہوئے
یہ گلاب سارے
حسنِ فطرت کا سارا جادو
یہ خوشبوؤں کا دیار سارا
یہ موسموں کا خمار سارا
تمہارے پیکر میں گھل گیا ہے
تمہارے ہونٹوں کی مسکراہٹ،
تمہاری آنکھیں،
تمہارا چہرہ،
یہ بےتکلف سا شوخ لہجہ
مرے تخیل کو چپکے چپکے
کوئی کہانی سنا رہا ہے
حسین سپنے سجا رہا ہے
میں دم بخود ہوں
میں سوچتا ہوں
یہ تم نہیں ہو تو کون ہے جو
گریز پا بھی ہے ساتھ بھی ہے
تمہیں خبر ہو تو
تم بتاؤ !