ہمیں ہیں بادہ کشانِ شرابِ آگاہی
نہیں ہے سہل مری جان تابِ آگاہی
لٹانا پڑتی ہے سارے جہاں کی نایابی
گراں بہت ہے اٹھانا نقابِ آگاہی
سکوں کے واسطے عرفاں کی جستجو کیا ہے
کسے خبر کہ ہے کیا اضطرابِ آگاہی
جنوں میں حد سے گزر جانا چاہے عشق مرا
سکھاتی ہوگی یہ اس کو کتابِ آگاہی
طلب تمہاری ہے ورنہ تمہارے در میں ہے کیا
پڑے ہیں ہم کہ یہی ہے نصابِ آگاہی
تمہاری آگہی دنیا کی دے خبر جو ندیم
تو طے ہے یہ کہ ہے تم کو سرابِ آگاہی