تمہاری بولتی آنکھیں
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillہزاروں راز کہتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
بہت بیتاب کرتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
وہاں یخ بستگی کو پھر کوئی لمحہ نہیں ملتا
جہاں پر جا ٹھہرتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
تمنا کے جزیروں میں کہاں پھر تیرگی باقی
اجالوں سا چمکتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
وہاں الفاظ کا جادو پریشاں حال دیکھا ہے
کچھ ایسے شعر کہتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
سمے کے درد ۔ وحشت کے بکھیڑے ۔ زندگی کے دکھ
مجھے سب کچھ بھلاتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
اترتی ہیں تجلی لینے ان پر چاند کی کرنیں
شہد میں رس ملاتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
چھپا رکھے شاید ان میں ہی سب بھید فطرت نے
سمندر سے بھی گہری ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
انہیں کاجل کی حاجت کیا انہیں کیا آئینہ درکار
محبت سے نکھرتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
نشہ سا لگ گیا دل کو ان مخممور لمحوں کا
بہت بجلی گراتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
انہیں آتا ہے ذہنوں میں سہانی خوشبوئیں بھرنا
تخیل کو جگاتی ہیں تمہاری بولتی آنکھیں
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






