تمہاری یاد تمہارا خیال رہتا ہے
تمہارے عشق میں جینا محال رہتا ہے
تمہاری دید کو جس طرح بیقرار ہوں میں
کیا میرے جیسا تمہارا بھی حال رہتا ہے
شبَ فراق میں اب نیند کیوں نہیں آتی
زبان حال پہ بس یہ سوال رہتا ہے
نہ فکرمند ہو اپنا شباب ڈھلنے پر
کیا تاحیات یہ حسن و جمال رہتا ہے
فضول کہتے ہو قسمت کو وجہ ناکامی
بشر کے ہاتھوں عروج و زوال رہتا ہے
وہ ایک پل میں بنا لیں گے تجھ کو دیوانہ
ادا میں اُن کی سراج یہ کمال رہتا ہے