تم مجھے آواز دو آزماؤ تو کبھی
ہم چلے آئیں گے تم بلاؤ تو کبھی
تمہیں کھو کر میرا جیون ادھورا ہو گیا ہے
میری کمی محسوس ہو گی تم کو بھی کبھی
تمہارے بنا میرا وجود تاریک رات سا
بنا چاند کے نکھری ہے رات بھی کبھی
تمہارے لئے کھلا ہے اس دل کا دروازہ
بند نہ ہو سکے گا یہ تمہارے لئے کبھی
تیر شمشیر کیا حائل ہوں انکے راستے میں
اہل وفا تو موت سے بھی ڈرتے نہیں کبھی
انداز وفا دیکھئے ہم نے جسے چاہا
وہ سراب صحرا میں بھی نہ ملا کبھی
عظمٰی ہمارا زور قلم کام آگیا
وہ ہمارے ہیں جو غیر تھے کبھی