میرے ذہین سے دل کے سوال کافی ہیں
جو رہے دل ہی دل میں وہ ملال کافی ہیں
تمہاری ُجدائی کی کیا اوقات ہے جاناں
دنیا کے نظروں کے وبال کافی ہیں
تم لوٹنا نہ چاہو تو الگ بات ہے
ورنہ میں نے کئے خط ارسال کافی ہیں
اک چائے کا خط لیے تمہاری حسرت کرنا
میں نے ایسے بھی گزائے سال کافی ہیں
تمہارے انتظار میں رات بھر جاگتے رہنا
جبکہ نیند کے آئے بوجال کافی ہیں
تم نے کیا ہی نہیں کبھی کھل کر اظہار لکی
ورنہ قدرت نے دیئے وصال کافی ہیں
یقین جانو میرا صدیوں کا غم مٹ جائے
تمہارے منہ کے میٹھے دو بول کافی ہیں