ملتا ہے روز لوگوں سے تنہا دکھائی دے
کتنا پرایا ہے مگر اپنا دکھائی دے
میں اسکی تلاش میں کیسے گھر سے نکل پڑوں
ہر راستے ہر موڑ پے وہ ہی دکھائی دے
کچھ راکھ ہوتے خوابوں کی تعبیر کب ملے
سوچوں تو دل کے ساحلوں پے وہ ہی دکھائی دے
صبح کی پہلی کرنوں میں پھیلا ہے اسکا نور
راتوں کے پچھلے پہر میں بھی وہ ہی دکھائی دے
سنتے ہیں جہاں میں وفاء ناپید ہو گئی
میری تو رگ و جاں میں وہی پنہاں دکھائی دے
روز محشر بھی اس سے ملنے کی تمنا کریں گے ہم
میری تو ہر دعا میں اسکا چہرہ دکھائی دے
جی چاہتا ہے روک لوں ان موسموں کی دھوپ کو
جسکی چبھن سے میرا وجود جلتا دکھائی دے
میرے تو تن بدن وہ سمایا ہے اس طرح
دیکھوں میں جب بھی آئینہ تو وہی دکھائی دے