تنہایوں کا اب میرے سامان ہو گیا
ویران تھا چمن جو گلستان ہو گیا
گلشن میں چار سو عجب پھیلے ہوئے ہیں رنگ
موسم بھی اب ذرا سا بےایمان ہو گیا
شاید وہ آئی ہے کسی پریوں کے دیس سے
آنے سے اس کے گھر یہ پریستان ہو گیا
تھاما ہے اس نے پیار سے ہاتھوں میں جب سے ہاتھ
مشکل سفر تھا زیست کا آسان ہو گیا
عادی تھا دل جو برسوں سے ہجر و فراق کا
ملی وصل کی خوشی تو حیران ہو گیا
الله رکھنا قائم اس باہمی ربط کو
زریں کے جو درد کا درمان ہو گیا