دھیرے دھیرے خاموشی سے
رات کے بھیگے آنگن میں
برس رہپی ہے آنکھ سے شبنم
جانے کس کی یاد لیے
چاند بھی تنہا
میں بھی تنہا
جاگ رہے ہیں ہم دونوں
کون چرا کے نیند ہماری
ہم کو تنہا چھوڑ گیا
دیکھ کے اپنا اپنا چہرہ
جھیل کے ٹھہرے پانی مین
ڈھونڈ رہے ہیں خود کو شاید
ماضی کے ویرانوں میں
رات کی سردی میں کس کی
سانسوں کی گرمی پھیل گئی
یاد کے جلتے انگاروں پر
پھر حسرت نے آہ بھری
جاگتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں
خواب جو پورے ہو نہ سکیں
تو بھی سو جا چاند اکیلے
مجھ کو بھی سو جانے دے