ہجر موسم عذاب لگتا ہے
تیرا غم سیراب لگتا ہے
مری جانب بھی ہو گا کبھی نور تیرا
تو مجھے مہتاب لگتا ہے
ہجر میں ترے ہر لمحہ مجھ تک تھا
کیوں ہر لمحہ بےنقاب لگتا ہے
مرا اک لفظ کیا؟ ؟ کچھ بھی نہیں
تو مرے عشق کا نصاب لگتا ہے
یادوں کو روک نا سکی میں
یادوں کا آنا بےحساب لگتا ہے
برپا نا ہو جائے کچھ ڈر رہتا ہے
عشق میرا انقلاب لگتا ہے
جو جیت گیا مجھے مجھی سے
وہ شخص بڑا کامیاب لگتا ہے
بند آنکھوں میں جھلملاتا ہے
محبت کا خواب لگتا ہے
اظہار کرتا ہے دبے لہجے میں
ہلتا اس کا لب، مرا جواب لگتا ہے