تُو اگر بد گُمان ہو جائے
یہ زمیں آسمان ہو جائے
اُس کی یادوں کے سائے میں رہئیے
زندگی کچھ آسان ہو جائے
دیکھ لے وہ اگر محبّت سے
دھوپ ہی سائبان ہو جائے
اِک نظر اُس کودیکھ لے زاہد
تم کو حاصل اِیمان ہو جائے
دیکھ لوبے حجابیاں اُس کی
شیخ جی امتحان ہو جائے
دیکھ کر اُس کے نازِ محبوبی
شیخ پھرسےجوان ہو جائے
شاعروں کی حسین محفل میں
دوستو کچھ بیان ہو جائے
یہی دنیا بہشت ہے پیارے
تُو اگر مہربان ہو جائے
مشکلیں پھر سے آنے والی ہیں
ہر کلی سخت جان ہو جائے
تری کشتی کو کون روکے گا
عزم گر بادبان ہو جائے
ڈھونڈ مرنے کی کوئی ایسی سبیل
زندگی جاوِدان ہو جائے
زخم تازہ کوئی لگا جاناں
دل مرا گلستان ہو جائے
تیر ہو جائے نہ خطا اُن کا
اَب کے دل درمیان ہو جائے
زندگی تو عذاب میں گزری
کاش مرنا آسان ہو جائے
تیر بن کر کیوں نہ نکلے روح
جب کمر ہی کمان ہو جائے