تِیر پھینکا ہوا گمان میں ہے
زندگی تو ابھی کمان میں ہے
زور چلتا نہیں وفاؤں کا
کیا محبت کے کاروان میں ہے
ساتھ رہتا ہے روح کا پنچھی
کچھ تو ایسا مری اڑان میں ہے
کیسے باتوں سے دلکشی جھانکے
جب یہ دردِ دہن زبان میں ہے
تیری خواہش میں ٹوٹتا ہے بدن
جانے کیا کیا ترے جہان میں ہے
سرخ ہونٹوں کو چومتی کرنیں
سب نگاہوں کی داستان میں ہے
عزم و ہمت کی داستاں وشمہ
میری کشتی کے بادبان میں ہے