تو راحت جاں بن کے مرے پاس جو آیا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
خاموش نگا ہوں سے ملیں مجھ کو صدائیں
کچھ سادہ مگر شوخ بھی ہیں تیری ادائیں
میں جب ہوا غمگین مجھے آ کے ہنسایا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
تو راحت جاں بن کے مرے پاس جو آیا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
زلفوں کی یہ کالی سی گھٹا میرے لیے ہے
ان گالوں پہ یہ رنگ حیا میرے لیے ہے
اے جان وفا پیار میں کیا کیا نہیں پایا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
تو راحت جاں بن کے مرے پاس جو آیا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
گیت کا منظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سردیوں کی چمکیلی دھوپ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت پارک جس میں فواروں
سے پانی اچھل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب اپنی محبوبہ (جو اس سے شدید محبت کرتی ہے اور اسے کبھی
اداس نہیں دیکھ سکتی) کو یہ محبت بھرا گیت سنا رہا ہے جو گیت سنتے ہوئے اک ادائے دلربائی لیے
مسکرا بھی رہی ہے اور کچھ شرما بھی رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔