تھی راز کی جو بات ادھر سے ادھر نہ کی
کرنی بسر تھی رات ادھر سے ادھر نہ کی
خاموش اس لیے ہی رہا کرب سہ کے بھی
تھی میری کائنات ادھر سے ادھر نہ کی
جو مل گیا ہے بس اسی پر ہی گزارہ کیا
کوئی بھی واردات ادھر سے ادھر نہ کی
بڑھ فرط اشتیاق سے چاہت گئی تھی جو
نظریں ملا کے گھات ادھر سےادھر نہ کی
چلتا ہی اپنے نہج سے اس شہر میں رہا
اپنی کبھی جہات ادھر سے نہ کی
کرسی پہ بیٹھنے کا سلیقہ نہ تھا مجھے
شہزاد میں نے لات ادھر سے ادھر نہ کی