تہہ در تہہ کیا جمتا لاوہ آگ بگولا پتھر میں
مٹی بھُن کر چٹخ گئی وہ آنچ تھی میرے پیکر میں
خوابوں کے ویران جزیرے دھوپ بھنور میں ڈوب گئے
باہر ہے اِک ریت کا صحراء اور سمدر اندر میں
ایک حقیقت کے ملبے سے روز نکل کر آتا ہے
شکل بدلتی تنہائی کابوڑھاڈھانچہ بستر میں