تیر چلتے رہے نگاہوں کے
زد میں دل آئے بے گناہوں کے
کیسے آغوش غیر میں جائیں
ہم تو عادی ہیں تیری بانہوں کے
بعد مدت کے مسکرائے تھے
اڑ گئے چہرے خیر خواہوں کے
جن کو کرتے رہے نظر انداز
ہم بھی مجرم ہیں ان گناہوں کے
پردئہ رہبری میں قزا قی
حوصلے دیکھو رو سیا ہوں کے
ساتھ رکھ ہم کو بھی غم دوراں
ہم بھی راہی ہیں تیری راہوں کے
عشق گا شوق ہے تو پہلے حسن
سیکھو انداز کج کلا ہوں کے