رات نے اوڑھ لی ہے نیند کی چادر
چھلک پڑتی ہیں آنکھیں سر شام اکثر
چاند ہے نہ چاندنی، نہ آرزو نہ روشنی
بے ربط خیال ہیں تنہائی کے در پر
پابند ہیں اُفکار تیرے پیار کی حد تک
لب بام آتا ہے تیرا ہی نام اکثر
ادُھورا ہے فلک، قمر کے ماند ہونے پر
اسی طرح میں ہوں مکمل تیرے سنگم پر
ہوتا ہے تیرے وجود کا احساس مجھ میں “فائز“
خود میں ڈُوب کر تجھے ہی پایا ہے اکثر