تیرا در چھوڑ کے کدھر جائیں
اس سے بہتر ہے ہم ہی مر جائیں
یہ پرندے بھی درس دیتے ہیں
شام ہوتے ہی اپنے گھر جائیں
لوگ ایسے تو کم ہی ملتے ہیں
دل کے آنگن میں جو اتر جائیں
حسن رہتا نہیں ہے ان میں پھر
پھول کانٹوں سے جب بکھر جائیں
آ محبت کی آزمائش میں
جلتے شعلوں سے ہم گزر جائیں
اس کو لکھوں جو شعروں میں باقر
میرے دیوان ہی نکھر جائیں