یہ ہی ازم رہا میرا یہ ہی میری لب کشائی
بس فقط محبت کا حاصل ہے کل خدائی
اس ہوس و محبت میں تفریق کرو دل سے
لڑو عشق کا مقدمہ کرو میری ہمنوائی
ابھی طفل سی حثیت ہے عشق کے مکتب میں
پروردگار اُلفت کر میری راہ نمائی
موت و حیات کے پوچھیں ہیں کس نے معنی
ہے وصل زندگانی اور موت ہے جدائی
کوہ غرور کو رنگِ عاجزی ہے بخشا
تیرا شکریہ محبت تو نے بندگی سیکھائی