کس قدر آسان ہے
اس کے لیے
کسی کو اپنی ذات سے منسلک کر کے
اپنے نام کی پہچان بھی چھین لینا
دیکھو جا کر اس سے کہو
یوں نہ رشتوں کو بے نام کرے
وہ کہ جس نے
آباد نہ کیے تھے
کسی کی یاد سے میں آنگن کے دریچے
اس سے کہو یوں تو نہ چاہت کا یہ انجام کرے
گر توڑنا ہی تھا خلوص کا ہر رشتہ
تو چپکے سے آکر
یہ کہہ دے کہ ہم تو کسی اور کے ہوئے بیٹھے ہیں
دیکھو جا کر اس سے کہو
گر توڑنا ہی تھا اس چاہت کو
تو اس بے نام سے بندھن کو یہ نام ہی کیون دیا
دیکھو جا کر اس سے کہو