مجھے دیکھو کہ میں بھی تو
تمہارے واسطے کتنے حوادث میں سے گزرا ہوں
کمالِ ضبط سے کتنے مصائب میں نے جھیلے ہیں
میرے اُجڑے ہوئے چہرے کو کتنے رنگ بھولے ہیں
میری آنکھوں نے رزمِ پیار میں کتنے ستم دیکھے
تمہیں پھولوں کا بستر دے کے خود کانٹوں پہ سویا ہوں
میرے ظاہر میں باطن کے سبھی غم تم نے دیکھے ہیں
اکٹھے ہم نے منزل کے سہانے خواب دیکھے ہیں
میرے پاؤں میں زنجیریں تھیں پھر بھی میرے ہونٹوں پر
تمہارے ہی ترانے ہیں
میں حیراں ہوں
تمہارے پاس دینے کو مجھے کوئی نہیں الزام
پھر بھی یہ تیرا چہرہ یقیں سے آج خالی ہے
تیری باتوں میں بے زاری مجسم ہے
تبھی تو میں نے روکا ہے
تیری آنکھوں میں جھانکا ہے
تیری آنکھوں میں دھوکہ ہے