آنکھ نے تم کو اک نظر دیکھا
دل نے پھر تم کو عمر بھر دیکھا
جسم رلتا رہا صحراؤں میں
روح کو تیری بام پر دیکھا
جب بھی مشکل کوئی درپیش ہوئی
سوچ نے بس تمہارا دردیکھا
دار کو چومنا ہی رہتا تھا
تیری راہوں میں وہ بھی کر دیکھا
جو کبھی راستوں کی منزل تھے
انہی قدموں کو در بدر دیکھا
ایک صورت ذہن میں لہرائی
جب بھی سوچوں کو منتشر دیکھا
اپنی ناؤ کی خستگی دیکھی
تیری آنکھوں کا سمندر دیکھا
تیرے ہونٹوں کو بہت یاد کیا
جب کوئی لرزتا ساغر دیکھا
تیری بے اعتنائی یاد آئی
خواب رستوں کو منتظر دیکھا
تیری محفل سے کیا اٹھا اک میں
جسکو دیکھا بچشم تر دیکھا
تیرے شعروں کو بار بار پڑھا
اپنے ادراک کا سفر دیکھا