تیری آوارگی
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar, Jalal Pur Jattan, Gujratیہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہو ،کسی آوارہ بھنورے کی طرح
نہیں جانتے ابھی محبت والوں کے دُکھ
کہ جن کے ماہ وسال تو گزر جاتے ہیں
دل میں رہنے والوں کی یاد ٹھہر جاتی ہے
تم کیسے جانو گے محبت والو ں کے دُکھ
شبِ ہجراں میں ٹرپتے ایسے ، ،،کشتہِ غم کی سیاہی جیسے
تم تو ٹھہرے برگِ آوارہ کی طرح
صفتِ پیار سے ابھی آزاد ہو
کہیں آوارہ تو کہیں خراب ہو
تم کیسے جانو گے
میں نے محبت کی ہر حد سے آگے تمھیں چاہا ہے
تو کہ ایک آوارہ بھنورہ
کسی ایک موسم کا ساتھی نہیں ہے تو
میں اب جان چکی ہوں
تیرے واسطے میری بساط کیا ہے
میری اوقات کیا ہے
مجھے اعتراف ہے یہ بھی
تو آباد ہے نجانے کب سے مجھ میں
کتنی رونقیں بخشی ہیں تو نے مجھے
ہجر کا موسم، عہدِوفا، بادِ صبا،،،،اور تو بے وفا
اُوہ آوارہ سے بھنورے ، میرے ہرجائی پیا
میرے بھی دل کی دُعا یہ ٹھہری
پاگل پھرو گے تم بھی، ترسو گے میرے خمار کو
دریچہِ آورگی بس ختم ہو گی تمھاری
میں تو تھک چُکی تیری آوارگی سے
میری آنکھوں کے نیم وا خواب مرنے کو ہیں
سانسو ں کا چلنا بس ٹھہرے کو ہے
تڑپو گے تم بھی یوں
جیسے میرے بین کرتی آنکھوں کا مداوہ نہیں کیا تو نے ابھی تک
نامہ بروں کو ڈھونڈتے پھرو گے
میرا پتہ پوچھتے پھرو گے
میں نہیں ملوں گی کہیں اورتجھے
ثبوت وفا کا رکھ جا ؤں گی
تیری ہی ذات میں ٹھہر جاؤ ں گی
یہ جو سر گشتہ سے پھرتے ہو ناں آوارہ
میرے بعد نہ ہو گا کو ئی تمھا را
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






