تیری اداؤں سے لگتا ہے خوشی اثر چھوڑ گئی
میرا مجاز ہوگیا ملائم کہ دلکشی اثر چھوڑ گئی
غم پشیمانی نے اپنا افلاس یوں عیاں کیا کہ
علیل کے پہلو میں آکے مفلسی اثر چھوڑ گئی
کوئی جستجو لیکر ہمیں ناگریزی میں رہنا پڑا
اب جان کا کیا خطرہ جس پہ عاشقی اثر چھوڑ گئی
یوں تو ایک گھونٹ خمار آلودہ نہیں کرتی
مگر یہ ساقی کا ہاتھ کہ مئکشی اثر چھوڑ گئی
کس گھڑی نے پھر ناممکن کیا ظاہر تو کرو
بندگی مانگنے چلے تو یہ سرکشی اثر چھوڑ گئی
بکثرت تونگری میں دل نے کیا پایا سنتوشؔ
یوں غم مروج ہوئے تو زندگی اثر چھوڑ گئی