تیری تجلی کے سوا عشق کا بدل بھی نہیں رہا
وہ جہاں وہ رنگینیاں یوں خلل بھی نہیں رہا
حسرت روشنائی میں کئی اندھیرے چھا گئے ہیں
اِس فلک پر جیسے تیرا آنچل بھی نہیں رہا
سوچا بیٹھ کر اپنے آپ سے ملیں گے مگر
تیری یاد جو تھی تو وہ تبتل بھی نہیں رہا
یہ خیال آرائی اپنی ہی راہ چن کے بیٹھتی ہے
اختیار سماعت میں تو میرا تخیل بھی نہیں رہا
تجھے جس منعکسی کی ہمیشہ منزلت ملتی تھی
وہ چاندنی کا رتبہ تیرے مثل بھی نہیں رہا
اُس کو ضابطہ عام کہو یا اصول اولیہ سنتوشؔ
اپنا تو پہلے جیسا کوئی عمل بھی نہیں رہا