عجب لہروں سا موسم ہے عجب سی بیقراری ہے
اے میرے ہم نشیں بتلا یہ کیسی رازداری ہے
میری وحشت کے ہاتھوں میں ہیں سارے رنگ لمحوں کے
وہیں سورج کو دیکھا ہے جہاں پر شب گزاری ہے
خمار میکدہ غائب ۔ ہجوم میکشاں غائب
مگر اس حسن کا ابتک نظر میں رقص جاری ہے
ذرا اپنے تبسم کا نظارہ کرنا درپن میں
تمہیں معلوم ہو کیونکر یہ بازی میں نے ہاری ہے
انہی اشکوں سے پھوٹے گی نئی صبح بہاروں کی
میری آنکھوں میں ہی تازہ گلوں کی آبیاری ہے
تجھے اب کون مجھ سے چھین سکتا ہے زمانے میں
تیری تصویر سینے میں نگاہوں نے اتاری ہے