تیری حسرت کے درو بام سے ڈر جاتی ہوں
خوف میں الجھی ہوئی شام سے ڈر جاتی ہوں
کتنی الجھی ہے یہاں پیار کہانی اپنی
جانے کیا ہوگا میں انجام سے ڈر جاتی ہوں
اس قدر تونے چرایا ہے مرا شعر و سخن
جب بھی پڑھتی ہوں ترے نام سے ڈر جاتی ہوں
تجھ سے ملنے کی تمنا ہے مجھے شام و سحر
تری ہجرت کے میں ایام سے ڈر جاتی ہوں
تری آنکھوں کا یہ بہتا ہے تو کاجل بہہ لے
پھر بھی چھلکے جو کبھی جام توڑ ڈر جاتی ہوں
مجھ کو لاتی ہے یہاں تیری عقیدت وشمہ
ورنہ اپنے ہی کسی کام سے ڈر جاتی ہوں