یاس کے سائے میں کیا کہنا پڑا
زندگی کو اک سزا کہنا پڑا
حسن! تیرے ہوتے آخر کیوں ہمیں
عشق کو بےآسرا کہنا پڑا ؟
طعنہ زن کو خوش مزاجی کے سبب
آخرش مدحت سرا کہنا پڑا
صرف اس دل کی تسلی کے لیے
ظلم کو بھی اک ادا کہنا پڑا
آگ کو پانی کہا , غم کو خوشی
تیری خاطر عشق! کیا کہنا پڑا
تاکہ حاکم وقت کا راضی رہے
نیکیوں کو بھی خطا کہنا پڑا
جو مری نظروں میں ظالم تھے کبھی
آج انہی سے مدعا کہنا پڑا