تیری خودی میں جب سے جلالت بس گئی ہے
اپنے حال کی بھی کیسی حالت بس گئی ہے
تیرے دید پہ ہی گذر کرنے کے بعد
ہر روح میں تھوڑی علالت بس گئی ہے
چلو آج ارمان منصفی کا فیصلہ سنتے ہیں
کئی دنوں سے دل میں عدالت بس گئی ہے
کوئی سمجھ لیتا ہے طرز ادا عاشقی ورنہ
آنکھ کی آنکھ سے کوئی رسالت بس گئی ہے
میرے خیال اُس خیال سے کترا جاتے ہیں
اب ارادوں میں جیسے سلاست بس گئی ہے
کئی راتوں کے بیداری سے لگتا ہے کہ
مجھ میں سنتوشؔ کوئی ظرافت بس گئی ہے