تیری دنیا کی اگر ہم بھی حقیقت ہوتے
ہم بھی اس کارِ محبت میں سلامت ہوتے
گر نہ یوں رسم و روایت کے کراتب ہوتے
تیرے افکار نہ یوں نذرِسیاست ہوتے
وقت احساس کی دولت سے تو معمور نہ تھا
تیری محفل میں بھلا کیسے قیامت ہوتے
ہوتی دنیا میں مرے نام کے شمع روشن
تیری ہستی کی اگر چشمِ عنایت ہوتے
کون نفرت کی ہواؤں کو ہوائیں دیتا
"خون کے رشتے وفا کی جو علامت ہوتے"
ان اندھیروں میں اگر دیپ جلائے جاتے
زندگی تیری تمنا میں سلامت ہوتے
تیرے گلشن میں اگر درد نہ کھلتے وشمہ
اپنے دل پر نہ کہیں داغِ محبت ہوتے