ناامیدی نے لہو دل کا بہا رکھا ہے
اب مرے دامن احساس میں کیا رکھا ہے
راہِ پُرنُور کے بھٹکے ہوئے کچھ تاروں نے
سارے ماحول کو تاریک بنا رکھا ہے
میرے نزدیک قیامت کے سوا کچھ بھی نہیں
تونے جو زیست کا مفہوم بتا رکھا ہے
تیری معصوم امنگوں کو بڑی مدت سے
میری آنکھوں نے گنہگار بنا رکھا ہے
تیری رحمت کے سہاروں نے خداوند کریم
غرق ہونے سے سفینے کو بچا رکھا ہے
پھر بھی اک جشن طرب دل میں رچا لیتا ہوں
گو مجھے گردش دوراں نے ستا رکھا ہے
میری غربت نے مرےفن کا اڑایا ہے مذاق
تیری دولت نے ترا عیب چھپا رکھا ہے
میں نے دیکھا ہے اُسی بات کے پردے میں سکوت
تونے جس بات پہ کہرام مچا رکھا ہے
کیسے پھر ہو نہ نگاہوں میں مروت کی جھلک
دل جو اخلاص کی کرنوں سے سجا رکھا ہے
اپنی تقدیس پہ یوں شیخ ِ حرم مت اِترا
میں نے بھی پرچم توحید اُٹھا رکھا ہے