تیری سادگی سے چاند بھی جلنے لگا ہے
پا کر رو برو تجھ کو وہ بھی ڈھلنے لگا ہے
گلشن میں تیرے نام سے ہے بہار آئی ہوئی
اور ہر شجر تیرے حُسن کا دم بھرنے لگا ہے
اِک دل تھا جسے خود پہ ناز تھا بہت مگر اب
تیری بہکی ہوئی جوانی پہ مرنے لگا ہے
کبھی گرمی کبھی سردی، کبھی خزاں کبھی بہار
موسم بھی تیرے اشاروں سے چلنے لگا ہے
آنکھوں میں ہو خماری تو یہ دنیا بہک جائے
مئے خانہ سا نگاہوں میں تیری بننے لگا ہے