تیری محفل میں تو فقط جانے کا بہانہ تھا
مجھے تو صرف تجھے نظروں سے گرانا تھا
بڑے دعوے تھے تمہارے یاد کرو تو
کانٹوں کے بستر پر تمہیں گلاب بیٹھانا تھا
چاند پسند ہے تو چاند میں داغ بھی ہو گا
لیکن تمہیں تو آئینے سے دل لگانا تھا
ہاں میں درد لکھتی ہوں سرے عام دنیا میں
مجھے حسرتوں کو لفظوں کی قبر میں دفنانا تھا
میں پاس بھی رہوں تو تم دیکھتے نہیں ہو
تیری نگاہ میں انتظار کی خاطر مجھے دور جانا تھا
کمرے کی لائٹ اوف کرنے سے یادیں تو نہیں جاتی
مجھے رات کو رونے کے لیے محفل میں مسکرانا تھا
پل دو پل کی بات ہوتی تو میں معاف کر دیتی
اے خواہشیں دل مجھے تو سوالی پر تجھے چڑھانا تھا