ذرا دھیرے سے ہی دھڑکے تم اپنے دل کو سمجھا لو
گرے اشکوں نے اپنی داستاں تم کو سنانی ہے
تیرے طرز تکلف نے وہ شوخی چھین لی جب سے
عجب ساکن سے لمحے ہیں عجب سی بے زبانی ہے
مجھے بخشی ہے راہ شوق میں احساس کی دولت
اے زور گردش ایام تیری مہربانی ہے
در شمع پہ اک مخمور پروانے نے بتلایا
شرار عشق پہ مرنا ہی شاید زندگانی ہے
میرے بے تاب لفظوں پر کہا اس شوخ نے ہنس کر
تن اظہار تو اچھا ہے لیکن روح پرانی ہے