تیری ہی دید ، تیری مجھے ہر خوشی پسند
تیرے بغیر کب ہے مجھے زندگی پسند
ہر سمت گونجتی ہے اذانِ وفا یہاں
یہ عشق میرا دین ، مجھے عاشقی پسند
اپنے وجودِ زیست میں کانٹوں کے باوجود
گلشن میں ہے گلاب کو بھی ہر کلی پسند
مجھ کو بھی اُس کے پیار کا انداز بھا گیا
اُس کو بھی میرے ہونٹوں کی ہے نازکی پسند
یا رب ! نہ کوئی شوخ نہ چنچل ہی بھیجنا
مجھ کو ہیں وہ پسند جنہیں سادگی پسند
دشتِ غمِ حیات میں بھرنے کو روشنی
اب کم ہیں اس جہان میں یہ تیرگی پسند
دورِ جدید میں یہاں چاہت کے باوجود
وشمہ نہیں ہے آدمی کو آدمی پسند