کچھ دنوں سے میرے ذہن میں ایک بات آرہی تھی
میں سوچ رہا تھا اس کو وہ یاد آرہی تھی
اس کی تصویر میرے تصور میں بن چکی ہے
جس سے ملنے کی دل سے فریاد آرہی تھی
اٹھتا یوں بیٹھتا ہوں سوچتا ہوں اس کو ہر پل
ہر بار اسی بات کی مجھے داد آرہی تھی
اس شبنمی چہرے پر مجھے ناز ہے عمر
میرے دل تجھ کو مبارکباد آرہی تھی
ساگر میں ڈوب جاؤں تیری نظر سے ہو کے
اس لمحے بھی خود کو بھول کر تیری یاد آرہی تھی